” تم بہت گندی بچی ہو، دیکھو یہ کیا پال رکھا ہے تم نے ؟ دیکھو “ نائی با لو ں کاایک بڑا سا گچھا لڑکی کی آنکھو ں کے سامنے لہرانے لگا۔ ان میں جوئیں رینگ رہی تھیں ۔ ” دیکھا تم نے ۔ چھی چھی چھی .... تم سے زیا دہ نا لا ئق اور گند ی لڑکی میں نے نہیں دیکھی ۔ غضب خدا کا اتنی بڑی ہو گئی ہو مگر تمہیں صفائی ستھرائی کا کوئی خیال نہیں ! اما ں ابا کچھ کہتے نہیں ؟....
بچی زیا دہ سے زیا دہ سات آٹھ سال کی ہو گی ۔ حجام اپنے استرے سے اس کے لمبے لمبے بال اتار رہا تھا ، ساتھ ساتھ اس کی زبا ن کا استرا بھی تیزی کے ساتھ چل رہا تھا ۔
” پتا نہیں کتنے سالو ں سے کنگھی نہیں کی اور شا ید پا نی تو با لو ں کو کبھی چھو کر ہی نہیں گزرا ، گھن آرہی ہے ۔ تمہیں تو جو ﺅ ں کے ساتھ ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے تا کہ وہ تمہا را خون پی سکیں بہت گندی اور پھو ہڑ ہو تم ....“ استرے کی ہر رگڑ کے ساتھ لمبے لمبے بال بچی کے کا ندھو ں پر پھیلی سفید چا در پر گر رہے ہیں ۔ الجھے ہوئے بالو ں کے گچھو ں میں جو ئیں اور لیکھیں لپٹی ہوئی تھیں۔ بچی ٹکٹکی باندھے سامنے آئینے کو تک رہی تھی ۔ اس کی نظریں اتنی سختی سے آئینے پر جمی ہوئی تھیں کہ پلکیں جھپکتے جھپکتے بھی اسے کا فی وقت گزر جا تا ۔ یو ں لگتا تھا کہ اسے کچھ پتا نہیں کہ وہ کہا ں بیٹھی ہے ، اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے اورنہ ہی وہ حجام کی کسی بات کا جوا ب دے رہی تھی ۔ ادھر حجا م تھا کہ مستقل لڑکی کو برا بھلا کہے جا رہا تھا ۔
اب حجام سختی سے لڑکی کے گنجے سر پر تولیہ رگڑنے لگا ۔ اس کے لہجے کے ساتھ اس کے انداز میںبھی اتنی نفرت چھپی ہوئی تھی کہ بے سا ختہ لڑکی کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ حجام نے اپنا کام پورا کیا اور لڑکی کو اس کے جو ﺅ ں بھرے با لو ں سے نجات دلا کر گنجا کر دیا ۔ اس نے پھر دوسرے گا ہک کو کر سی پر بیٹھنے کا اشا رہ کیا ۔ بظاہر قصہ ختم ہو گیا ۔ دوسرے گا ہکو ں کو نپٹاتے ہوئے حجام لڑکی کی جوﺅ ں کو بھول چکا ہو گا لیکن اس کی با تو ں کے استرے نے لڑکی کے ذہن اور روح پر جو زخم لگائے ، وہ شاید کبھی نہیں مٹ سکیں گے اور آگے چل کر مختلف صورتو ں میں ، مختلف اوقات میں لڑکی کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے ۔
ہو سکتا ہے یہ پڑھ کر آپ کو حیرت ہو لیکن حقیقت یہی ہے ۔ بڑے بوڑھو ں کا یہی کہنا ہے ” تلوار کا گھاﺅ تو بھر سکتا ہے لیکن زبان کا گھا ﺅ کبھی نہیں بھر تا ۔ “ ممکن ہے آپ کو اس با ت سے اتفاق نہ ہو لیکن ماہرین نفسیا ت کا یہی کہنا ہے کہ سنی او ر پڑھی ہوئی با تو ں کا بہت سا حصہ ہمارے ذہن کے مختلف گو شو ں سے سفر طے کر تا ہوا آخر کا ر لا شعور کی پنہا ئیو ں میں اتر جاتا ہے۔ پھر وقتا فوقتا ہوا کا کوئی بھی تا زہ جھو نکا راکھ میں دبی ہو ئی چنگا ری نئے سرے سے سلگا دیتا ہے اور دھواں اٹھنے لگتا ہے ۔
شعور اور لا شعور پر کسی اور وقت با ت ہو گی ، زیر بحث مو ضوع کا اطلا ق نہ صر ف ہماری معا شرتی زندگی پر ہو تا ہے بلکہ ہماری انفرا دی زندگی بھی اس کے عمل دخل سے با ہر نہیں ۔ اتفاق یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک طر ف تو سادہ اور عام فہم ہے دوسری طرف کوئی اسے نہ تو مسئلہ سمجھتا ہے اورنہ ہی اس کے حوالے سے سنجید گی کے ساتھ کچھ سوچنے کی زحمت کرتا ہے ۔ نتیجے میں ہمارے معا شرے کے حساس اور نازک طبقے یعنی بوڑھے ، ننھے بچے اور عورتیں اس مسئلے کے گر د اب میں تیزی سے گرفتار ہو رہے ہیں۔
ان سب میں شدید ترین ضرب بچو ں کو لگتی ہے کیو نکہ ان کی سوچ حساس ترین اور روح نا زک تر ہو تی ہے ۔ ان کی دنیا اور فکر محدود ہے ، ایک چھوٹے اور خاص دائرے سے با ہر ان کا ادرا ک جو اب دے جا تا ہے ۔ ان کے ذہنو ں میں بیک وقت ان گنت متضاد خیا لا ت اور سوالا ت کے بگولے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں ۔ ان کی شخصیت روزانہ تعمیر اور تخریب کے کئی مراحل سے گزر تی ہے ۔ ان کے سامنے ہر دن زندگی کے پیچیدہ معاملا ت کو سمجھنے اور بر تنے کے حوالے سے ایک نئی کتاب کا نیا ورق کھولتا ہے۔ ہر شب ان کے خوا بو ں کے لیے سوال و جوا ب کا ایک نیا سلسلہ ترتیب دیتی ہے ۔ ما ں با پ، بہن بھائی ، اور عزیز و اقارب سے لیکر کتا ب اور استا د تک تمام لو گ اور چیزیں اور تمام لو گو ں اور چیزو ں کی با تیں ان کی سوچ اور شخصیت پر اس حد تک اثر انداز ہو تی ہیں کہ ماہرین نفسیا ت کے ایک مکتبہ فکر نے یہا ںتک کہہ دیاکہ انسانی شخصیت کی نشو ونما اور تعمیر عمر کے ابتدائی دس سالو ں تک ہی ہو تی ہے ، با قی ماندہ عمر ابتدائی دس سالو ں میںجنم پانے والے خیا لا ت ، سوالات اور تفکرات اور جذبو ں اور سو چو ں کے عملی مظاہرے کے سوا کچھ نہیں ۔
ماہرین نفسیا ت کے دیگر مکا تب اس فکر سے کلی طور پر اتفا ق تو نہیں کر تے البتہ اس حد تک ہم خیال ضرور ہیں کہ بچوں کی زندگی کی ابتدائی تجر با ت اور مشا ہدات آگے چل کر ان کی شخصیت پر بڑے گہرے اثرات مر تب کر تے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ اتنے دیر پا اور مستقل ثابت ہو تے ہیں کہ کوئی نیا ، رنگین ، دلفریب اور سو دمند تجر بہ بھی انہیں مٹانے میں ناکام رہتا ہے ، اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک تو بچو ں کی قوت مشا ہدہ کے ساتھ ساتھ قو ت حافظہ بھی با قی تمام افرا د سے زیا دہ ہو تی ہے اور دوسرے کو رے کا غذ پر جو حروف لکھ دیئے جا ئیں ، وہ لا کھ مٹانے کے با وجو د کہیںنہ کہیں سے ضرور ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ آگے نہ بڑھیں ، اگلی بات پڑھنے سے پہلے ذرا ٹھہر جائیں، اپنے ذہن پر زور ڈالیں اور یہ سو چیں کہ آپ کو اپنے بچپن یا لڑکپن کے کون سے اہم وا قعات ابھی تک یا د ہیں ؟ آپ کو ایسے کئی واقعات یا دآئیں گے جن کی یا د آپ کے لیے خوشی اور تسکین کا سبب بنے گی لیکن اچانک کسی نا معلوم جگہ سے آپ کے بچپن کا کوئی تلخ اور نا خوشگوار تجر بہ بھی آپ کے ذہن کے ور ق پر روشن ہو جائے گا جس کی یا د آنا ً فانا ً آپ کے منہ کا ذائقہ کڑوا کر دے گی ۔ تب آپ کی خوشی کا سامان بننے والے تمام واقعات اور تجر بات اسی طر ح غائب ہو نے لگیں گے جس طر ح بند مٹھی میں سے ریت پھسلتی ہوئی نیچے گرتی ہے اور آپ تمام تر کو شش کے با وجو د ریت کے ذروں کو نیچے گرنے سے نہیں روک سکتے ۔ جب بھی بڑے اپنی تمام تر تعلیم ، تربیت اور تجر بات کے باو جو د اپنے منہ کو ماضی کے کڑوے اور کسیلے ذائقے سے نہیں بچا سکتے ، تو ذرا سو چیں کہ بچے تو پھر بچے ہیں ۔ قدرت نے ان کی فطر ت میں تحیر اور تجسس کا ما دہ و دیعت کیا ہو تا ہے۔ ہما ری ہر با ت ان کی سو چو ں میں مدو جذر پیدا کر تی اور انکے ذہنو ں میں یہ سوال اٹھا تی ہے کہ ہم نے ان سے وہ با ت کیو ں کی .... خوا ہ اس با ت یا انداز میں ان کے لیے محبت ، اپنا ئیت اور عزت کے جذبات پو شید ہ ہو ں یا اس سے نفرت ، حقارت اور عدا و ت جھلک رہی ہو ۔ یا د رکھیے کہ بڑو ں کی ہر بات بچو ں کے جذبا ت کو مشتعل اور نفسیات کو منتشر کر تی ہے ۔ ان کی شخصیت میں پختگی اور تعمیری پن اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب انہیں دیا جا نے والا ما حو ل خود اپنی جگہ ذہنی ، جذبا تی اور نفسیا تی ہم آہنگی کی اعلی مثال ہو ، بصورتِ دیگر بچو ں کے ساتھ ہما رے تعلقات میں اگر ہما رے روئیے کی مستقل تبدیلیاں آتی رہیں تو پھر بچو ں کی شخصیت اور نفسیات میں ایسے خلا رہ جا تے ہیں ۔ جنہیں پر کرنا آسانی سے ممکن نہیں ہو تا۔ بچو ں کو ما رنا ، پیٹنا اور ڈانٹنا ہما رے معا شرے میں خاصا عام ہے ۔ خصو صاً دیہا ت ، قصبو ں اور غیر تعلیم یا فتہ غریبو ں اور مزدورپیشہ افرا د میں یہ ایک عام مشغلہ ہے لیکن اس مشغلے سے پڑھے لکھے ، دولت مند اور با ثروت لو گ بھی نہیں بچ پاتے ۔ بچہ اسکو ل جا تے ہوئے ہچکچا رہا ہے یا شام میں کھیل کو د کے بعد دیر سے گھر آرہا ہے ، تو اسے مارپڑنے لگے گی۔ دوسرے بچو ں سے لڑ بیٹھا ہے یا کوئی شرارت کر بیٹھا ہے ، تو اسے ما ر پڑے گی ۔ کوئی چیز توڑ دی ، کپڑے گندے کر لیے تو وہ ما ر یا ڈانٹ سے نہیں بچ سکتا ۔ پڑھائی میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرے یا بڑو ں سے بد تمیزی اور بد تہذیبی کے ساتھ پیش آئے تو پھر ان کی خیر نہیں ۔ غرضیکہ اَن گنت بہا نے بچوں کو ما رپیٹ اور ڈانٹ کا نشانہ بنا تے ہیں ۔ ان بہانوں میں سو تیلے ما ں با پ اور عزیز رشتہ دارو ں کا سلو ک ، بڑے بہن بھائیو ں اور استا دو ں کا رویہ سبھی چیزیں شامل ہیں ۔ بچو ں کے حوا لے سے اس سلو ک اور روئیے کو ماہرین نفسیا ت نے جسمانی ایذا کا نام دیا ہے جو ایک دن کے بچے سے لے کر اٹھا رہ بیس سال تک کے افراد کو اپنی گر فت میں لے سکتا ہے ۔ والدین ، اساتذہ اور دیگر بڑے ،بچو ں کے ساتھ اس طرح کا رویہ کیو ں رکھتے ہیں ؟ یہ الگ بحث ہے کیو نکہ اس کے حوالے سے بھی علم نفسیا ت میںکئی توجیحات اور معروضات پیش کی گئی ہیں ۔
بچو ں کے ساتھ بڑوں کے نا روا سلوک کی ایک اور شکل بھی ہے جسے نفسیا ت کے ما ہرین جذباتی ایذا کا نام دیتے ہیں ۔ یہ بھی کوئی نیا یا کمیا ب مسئلہ نہیں ، ہمارے ارد گر د اس نو عیت کے واقعات ہو تے ر ہتے ہیں ۔ پھر بھی اللہ کا احسان ہے کہ مغربی معا شرے اور تہذیب کی بہ نسبت ہما را معا شرہ بڑی حد تک اس مسئلے سے بچا ہو اہے ۔ایسا کیو ں ہو تا ہے اور اس کے نتیجے میںبچو ں کی نفسیا ت پر کس طر ح کے منفی اثرات مر تب ہو تے ہیں ؟ یہ بھی ایک الگ بحث ہے۔ زیر بحث مو ضو ع کا تعلق اس مسئلے سے ہے جسے ماہرین نفسیات نے جذباتی ایذا کا نام دیا ہے ۔ا سکاشکا ر ہونے والے بچو ں کی شخصیت عموماً ادھوری اور ناپختہ رہتی ہے ۔ با ر بار ایک ہی با ت جب ان کے ذہنو ں میں بٹھا دی جائے کہ وہ گندے ہیں ، برے ہیں ، نا لا ئق ہیں ، بد تہذیب اور بد تمیز ہیں ، غرضیکہ جب ان کی شخصیت کے ساتھ بار بار منفی صفات منسوب کر دی جائیں تو نہ صرف اپنی ذات پر سے ان کا اعتما د اٹھ جا تا ہے بلکہ وہ دوسرو ں پر بھی اعتبا ر کرنے سے گھبراتے اور کترانے لگتے ہیں ۔ ان کے ذہن میں یہ بات گرہ بن کر بیٹھ جا تی ہے کہ وہ دوسرے لو گو ں سے کم تر ہیں اور ان کے اندر کسی قسم کی مثبت خو بی نہیں پائی جا تی اور یہ کہ وہ کبھی بھی اچھے انسان نہیں بن سکتے یہ باتیں ان کے ذہن میں طر ح طر ح کے سوال جنم دیتی ہیںجن کا تسلی بخش جواب حاصل کر نے کے لیے بچے کسی سے رجو ع کر تے ہوئے بھی گھبرا تے ہیں ۔ نتیجے میں جو ں جو ں وہ بڑے ہو تے ہیں ، توں توں ان کی شخصیت پیچیدہ اور متضا د خیالات میں الجھی چلی جا تی ہے۔ ایک وقت وہ آتا ہے جب وہ اپنے ذہن میں بر پا اس مستقل جنگ سے تنگ آکر یا تو کلی طور پر فرار کا راستہ ڈھو نڈ لیتے ہیں۔ یعنی با قی ما ندہ لوگو ں سے کٹ کر طر ح طر ح کی ذہنی اور نفسیا تی بیماریو ں میں مبتلا ہو جا تے ہیں یا پھر ان کے اندر کی جنگ انھیں چڑچڑا اور غصیلا بنا دیتی ہے اور وہ ہر وقت اپنے ارد گر د کے افرا د سے الجھنے اور لڑنے لگتے ہیں ۔ اس سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی متا ثر ہو تی ہے ۔ بلکہ وہ اپنے ساتھ رہنے اور ساتھ کام کرنے والے افرا د کی زندگیا ں بھی دو بھر کر دیتے ہیں ۔ چونکہ بچپن میں انہو ں نے ہمیشہ اپنے آپ کو منفی کر دار کے حوالے سے سنا ہو تا ہے لہذا بڑے ہونے کے بعد ان کے لاشعور میں یہ ڈر اور خو ف یقین کی حد تک چھپا ہو تا ہے کہ اب ان کے تعلقات جن لو گو ں سے بھی استوار ہو ں گے وہ انہیں برا سمجھیں گے اور برا ہی کہیں گے ۔ یہ ڈر اور خوف دیگر افرا د سے ان کے تعلقات کو بری طر ح مجر وح کر تا ہے اور بعض اوقات یہ صورت سامنے آجا تی ہے کہ وہ از خود دیگر افرا د سے نفرت کر تے ہیں اور ان کے کر دار کی منفی خصوصیا ت کو اجا گر کرنے لگتے ہیں اس سے انہیں وقتی ذہنی سکو ن تو حاصل ہو تا ہے لیکن آخر کا ر وہ اپنے اندر پرورش پانے والے نفرت اور حقارت کے جراثیم دوسروں میں منتقل کر دیتے ہیں ۔
یہ بات اگر ہمارے ذہن میں آجائے ، تو ہم یقینا کسی بھی بچے کو جذبا تی ایذا پہنچانے اور اس پر طنز و تشنیع کے تیر برسانے سے پہلے یقینا یہ سو چیں گے کہ اس طر ح ہم نہ صرف ایک بچے کے مستقبل کو نفسیا تی الجھنو ں کے سپرد کر رہے ہیں بلکہ اس بچے کے ذریعے کئی اور افراد کی زندگیا ں بھی داﺅ پر لگا رہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی شعوری طور پر یقینا یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے بچو ں کی نفسیات کو استحکا م بخشنے کی بجائے اضطرا ب میں مبتلا کر دے ۔ یہ با ت ہم سب کے اختیار میں ہے کہ اپنی با تو ں اور اپنے کر دار سے بچو ں کو کبھی بھی اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ برے ، کم تر اور حقیر ہیں ۔غصہ سب کو آتا ہے لیکن بچے بچے ہو تے ہیں ، ان سے نفرت وحقارت کے ساتھ پیش آنا ، ان کی حرکتو ں اور شرارتو ں کو مستقل منفی انداز میں ان کے سامنے پیش کرنا ہمیں قطعا ً زیب نہیں دیتا ۔ یقین کیجئے یہ بہت آسان ہے کہ ہم اپنی زبان سے انگا رے اگلنے کے بجائے محبت ، اپنا ئیت اور عزت کے ساتھ ان پھولو ں کی آبیا ری کریں ۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے گھر کے آنگن میں خوشبو پھیلی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں یا ............
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 390
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں